السلام علیکم سامعین!

سندھی لئنگویج اتھارٹی حیدرآباد کی جانب سے تیار کردہ سندھی کورس کے ساتھ، میں ہوں ڈاکٹر فہمیدہ حسین!

پچھلے سبق میں ہم نے آپ کو بتایا تھا  کہ اردو کی طرح سندھی میں بھی بنیادی فعل مصدر/ Infinitives سے بنتے ہیں۔  اردو میں مصدر کی نشانی ہوتی ہے 'نا' اور یہ لفظ کے آخر میں'نا' کی آواز ہوتی ہے۔  جیسے: ’آنا‘، ’جانا‘، ’کھانا‘، ’پینا ‘ وغیرہ میں۔ جبکہ سندھی میں یہ نشانی ’ڑں‘ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اچڑں، ونجڑں (وڃڻ)، کھائڑں، پیئڑں  وغیرہ  میں۔  اس طرح کے مزید الفاظ آپ لغت سے بھی لے سکتے ہیں۔ کچھ میں نے آپ کو پچھلے سبق میں بھی بتائے تھے۔کل میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اردو اور سندھی کے ان مصادر سے آخری حروف 'نا' اور ’ڑں‘  نکال دینے سے بنیادی فعل بنتے ہیں۔  اسماء آپ کو وہ فعل یاد ہیں؟

اسماء:   جی ہاں۔ اردو میں ’آنا‘ سے ’آ‘، ’جانا‘ سے ’جا‘، ’کھانا‘ سے’ کھا‘ اور ’پینا‘ سے ’پی‘ بنیادی فعل بنتے ہیں، جبکہ سندھی میں بھی ’اچڑں‘ سے ’آ‘ یا’اچ‘، ’ونجڑں‘  (ۆعڏڼ/ وڃڻ) سے ’ونج‘ (وڃ)، ’کهایڏڼ‘  سے ’کهاءُ‘ اور
’پیئڑں‘ سے ’پیءُ‘ وغیرہ بنتے ہیں۔

استاد:   حسن آپ ان کو دہرائیے اور پھر دوسرے الفاظ بھی کہیے۔

حسن: اردو میں لکھنا سے لکھ  سندھی میں لکھڑں سے لکھُ

پڑھنا سے پڑھ ۔  سندھی میں پڑھڑں سے پڑھُ

گھومنا سے گھوم۔  سندھی میں گھمڑں سے گھمُ

پھرنا سے پھر۔  سندھی میں پھرڑں سے پھر

استاد:   جو الفاظ آپ دونوں نے بنائے ’آ‘، ’جا‘، ’کھا‘، ’پی‘، ’پڑھ‘ ’لکھ‘  وغیرہ۔ ان کے سندھی متبادل ’اچ‘،’ونج‘(وڃ)،’کھاءُ‘، ’پیءُ‘،’پڑھ‘،’لکھ‘ ہونگے۔ ان کو سندھی اور اردو میں بنیادی فعل یا امریہ فعل کہتے ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ 'امر' کا مطلب ہوتا ہے 'حکم' یا  command- تو جب یہ جملے میں استعمال ہوتے ہیں تو حکمیہ جملہ بنتا ہے یا  التجا بنتی ہے۔  چونکہ حکم سامنے والے کو دیا جاتا ہےیا  التجا بھی سامنے والے سے کی جاتی ہے اس لئے اس کے ساتھ جو ضمیر استعمال ہوتا ہے وہ بھی ضمیر حاضر ہوتا ہے۔ آئیے اب ان کا جملوں میں استعمال دیکھیں۔ صرف بنیادی فعل کا استعمال میں آپ بتاؤں گی۔

’آنا‘ سے ’آ‘  لفظ  بنا۔ اسےہم ضمیر حاضر کے ساتھ استعمال کریں گے تو اردو میں جملہ بنے گا  ’تو آ‘۔  اگرچہ 'تو' کا استعمال عام گفتگو میں اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن لفظ 'آ' کا استعمال اسی ضمیر کے ساتھ ہوسکتا ہے۔  اس لئے  اسی کو استعمال کریں گے۔ ورنہ ’تم‘ کے ساتھ تو پھر ’آؤ‘  ہو جائے گا جو کہ بنیادی فعل کی ایک دوسری صورت ہے جو ہم یہاں پر استعمال نہیں کر رہے۔ اب سندھی میں، 'تو  آ' کا        ترجمہ ہوگا ’توں اچ‘(يا تون آءٌ)۔ (تون اچُ)

اسی طرح ’تو  جا‘ کا سندھی میں ترجمہ ہوگا ’توں ونج‘        (تون وڃ)

تو لکھ۔  تو سندھی میں ہوگا 'توں لکھ'                      (تون لکُ)

تو  پڑھ۔                'توں پڑھ'                      (تون پڙههُ)

(جملے دہرائے جائیں گے)

استاد:   ٹھیک ہے۔ اور کچھ جملے بنائیے:

اسماء:   تو کھا۔          توں کھا  ۔                  (تون کهاءُ/ کاءُ)

تو پی۔         توں پی۔                   (تون پيءُ)

تو  گھوم۔                توں گھم۔        (تون گهُم)

تو  پھر۔          توں پھر۔       (تون ڦِرُ)

(ان کو دہرایا جائے گا)

استاد:   ٹھیک ہے۔ امید ہے آپ کی سمجھ میں آ     گیا ہوگا کہ ضمیر حاضر کے ساتھ فعل کی بنیادی صورت لگتی ہے، اسی بنیادی صورت میں تبدیلیاں اور اضافے کرکے ہم مختلف ضمیروں کے ساتھ فعل کی نئی صورتیں بناتے ہیں۔ بعد میں پھر ان کی مدد سے مختلف زمانوں یعنی زمانہ حال، ماضی اور مستقبل وغیرہ میں ان کی تبدیلیوں کو سیکھ سکتے ہیں ان تبدیلیوں کو سندھی اور اردو میں  گردانیں کہتے ہیں۔

تو آئیے اب ہم مختلف ضمیروں کے ساتھ فعل کی گردان یا تبدیلی دیکھیں۔ سب سے پہلے لیتے ہیں متکلم (ضمیر) جسے انگریزی میں first person pronounکہتے ہیں یعنی خود کلام کرنے والا ۔ 'میں'۔ جسے سندھی میں 'آؤں' اور 'ماں' بھی کہتے ہیں۔ 'ماں' چونکہ اردو کے لفظ 'میں' سے ملتا جلتا ہے اس لئے آپ کو زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔ اردو میں 'میں' کے ساتھ بنیادی فعل کی صورت اس طرح ہوتی ہے۔

'میں آؤں'، 'میں جاؤں'،' میں لکھوں'،' میں پڑھوں'۔ یعنی بنیادی فعل میں 'اوں' کا لاحقہ جوڑا۔

سندھی میں اس بناوٹ کی متبادل بناوٹیں اس طرح ہونگی۔

میں آؤں۔      ماں اچاں۔( اردو میں 'اوں' کا  لاحقہ جوڑا  اور  سندھی میں’ آں کا‘)

میں جاؤں ۔     ماں ونجاں                                           (مان وڃان)

میں لکھوں ۔    ماں لکھاں      (مان لکان)

میں پڑھوں ۔    ماں پڑھاں      (مان پڙهان)

(دونوں شاگرد  دہرائیں گے)

ٹھیک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ  اردو میں بنیادی فعل میں 'اوں' کا اضافہ کرنے سے ضمیر متکلم کا بنیادی فعل بنتا ہے جیسے: آ+ اوں = آؤں، جبکہ سندھی میں بنیادی فعل کے ساتھ 'آں' کا اضافہ کرتے ہیں۔  اچ + آں = اچاں۔  اس اصول کے تحت ہم بہت سارے جملے بنائیں گے۔ آج کے لئے اتنا ہی کافی۔ اب اجازت دیجئے۔ خدا حافظ۔