السلام علیکم سامعین!

 سندھی لئنگویج اتھارٹی کی جانب سے تیار کردہ  سندھی کورس کے ساتھ، میں ہوں ڈاکٹر فہمیدہ حسین۔ میرے ساتھ میرے دو  شاگرد ہیں اسماء   اور حسن۔

سامعین، جیسا کہ آپ جانتے ہیں  سندھی زبان وادیِٔ  سندھ  کی ایک قدیم زبان ہے، جو ہزاروں سال سے نہ صرف بولی جا رہی ہے، بلکہ اس کی اولین تحریری صورت بھی کم از کم پانچ  ہزار سال قدیم ہے، جو ’موہن جو دڑو‘  اور ’ہڑپہ‘ کے کھنڈرات سے دریافت شدہ مہروں پر کندہ ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح سندھی زبان میں بھی وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہوگی اور اس نے مختلف زبانوں کے اثرات بھی قبول کئے ہوں گے، لیکن اس کی بنیادی ساخت یا بناوٹ میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور اس کے صرف و نحو کے قواعد صدیوں سے وہی ہیں اور یہ بات کم از کم ایک ہزار سال کے تحریری  رکارڈ سے ثابت کی جا سکتی ہے۔

ہم اپنے اس پروگرام کے ذریعے ان ہی قواعد کی روشنی میں ’عام بول چال‘  کی زبان سکھانے کی کوشش کریں گے۔ ایک بات یہ بھی بتانا چاہوں گی کہ سندھی زبان میں چند اضافی/ مخصوص آوازیں ہوتی ہیں، جو اردو زبان میں موجود نہیں ہیں، جن کو ہوّا بنا کر زبان کے سیکھنے سکھانے کے عمل کو  خواہ مخواہ مشکل سمجھا جاتا رہا ہے۔ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں مخصوص آوازوں کی ادائگی اور تلفظ کو اہمیت دینے کے بجائے الفاظ اور جملوں کی ساخت کو سمجھا جائے، جن کی بنیاد  پر  مذکر و مؤنث، جمع واحد، مختلف حالتوں (cases)  اور ان میں الفاظ اور جملوں کی گردان وغیرہ کرنے میں آسانی ہو۔ اس سلسلے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ مارکیٹ سے کوئی بھی اردو- سندھی یا  سندھی-  اردو لغت لے لیجئے۔ الفاظ کا ذخیرہ یا Vocabulary وہاں سے مل جائے گی۔ (سندھی لئنگویج اتھارٹی نے بھی اردو-  سندھی لغت شایع کی ہے۔)

سب سے پہلی بات یا  پہلا  اصول یہ ہے کہ:

سندھی زبان کے الفاظ کے حروف متحرک ہوتے ہیں۔ خصوصًا لفظ کا آخری حرف  اگر ’حرفِ صحیح‘ (Consonant) ہو تو  ہمیشہ ہی متحرک ہوتا ہے، جبکہ اردو میں یہ عموماً ساکن ہوتا  ہے۔

مثلاً  چند ایسے الفاظ  جو دونوں زبانوں میں ایک جیسے ہیں،  یہ ہیں:

الفاظ

سندھی تلفظ

سندھی اندازِ تحریر

قلم      

’قلمُ ‘

قلمُ

کاغذ

’کاغذُ‘

ڪاغذُ

باغ

’باغُ ‘

باغُ

فرش

’فرشُ ‘

فرشُ

خط

’خطُ ‘

خطُ

جہاز

’جہازُ‘

جهازُ

ان الفاظ کے آخر میں ’م‘، ’ذ‘،  ’غ ‘، ’ش ‘،  ’ط‘  اور ’ز‘  حروفِ صحیح ہیں، جو اردو میں ساکن ہیں، جبکہ سندھی میں ان پر پیش ہے یا  ’ اُ ‘  کی ہلکی سی آواز ہے، جو انہیں متحرک بناتی ہے۔

اسماء! آپ اِن الفاظ کو پہلے اردو میں اور پھر سندھی میں دُہرائیے۔

(الفاظ دہرائے جائیں گے)

حسن! آپ بھی ان کو دہرائیے گا۔

(الفاظ دہرائے جائیں گے)

اب آپ کو فرق سمجھ میں آ گیا کہ اردو میں اور سندھی میں تھوڑا سا جو لہجے کا فرق ہے وہ کس طرح ادا  ہوتا ہے۔

اسی طرح کچھ الفاظ میں آخری حروف پر زبر  یا       زیر کی حرکات بھی ہوتی ہیں، جن سے ’  اَ   ‘ یا ’ اِ ‘ کی آواز   پیدا  ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اردو کے الفاظ میں بولتی ہوں:

الفاظ

سندھی تلفظ

سندھی  انداز تحریر

میز

’میزَ ‘

ميزَ

سڑک

’سڑکَ‘

سڙڪَ

عورت

’عورتَ‘

عورتَ

نتھ

’نتھَ‘

نٿَ

زمین

’زمینَ‘

زمينَ

تصویر

’تصویرَ‘

تصويرَ

ان تمام  الفاظ کے آخری حروف کو متحرک بنانے کے لئے ہم نے ان کے آخری حروف پر  زبر لگائی  یا ’  اَ ‘ کی آواز  پیدا  کی۔

اسماء!  آپ ان الفاظ کو دُہرائیے۔

(الفاظ دہرائے جائیں گے)

حسن! آپ بھی کہیے۔

(الفاظ دہرائے جائیں گے)

سندھی الفاظ کی تیسری قسم وہ ہوتی ہے، جن کے آخری حروف پر ’ اِ‘  کی آواز   یا   ’زیر‘  کی حرکت لگاتے ہیں۔ مثلاً:

الفاظ

سندھی تلفظ

سندھی انداز تحریر

چھت

’چھِتِ‘

ڇِتِ

رِ یت

’رِیتِ‘

رِيتِ

دیوار

’دیوارِ/بھتِ‘

ديوارِ/  ڀِتِ

آنکھ

اکھِ

اکِ

شکل

’شکلِ‘

شڪلِ

استاد:  تو یہ تمام الفاظ آپ دونوں بھی دہرائیے۔ اسماء! آپ الفاظ کو  دُہرائیے۔

(الفاظ دہرائے جائیں گے)

استاد:         حسن!  آپ کہیے۔

(الفاظ دہرائے جائیں گے)

یوں آپ کو معلوم ہوا کہ ایسے تمام الفاظ، جن کے آخر میں ’حرفِ صحیح‘ (Consonant) ہو،  ان کے آخری حروف اردو میں تو ساکن ہوتے ہیں، مگر سندھی میں متحرک ہوتے ہیں، یعنی  ان  پر  پیش،  زبر  یا  زیر  کی اعرابیں یا ’  اُ ‘، ’اَ‘،’اِ‘ کی آوازیں ہوتی ہیں۔

ان آوازوں کی تدریس میں کیا  اہمیت ہے،  یہ آپ کو میں اگلے سبق میں بتاؤں گی۔ لیکن پہلے اس بات کو یاد  رکھئے گا کہ الفاظ کے آخری حروف متحرک ہوتے ہیں اور اُن میں زیر، زبر، پیش میں سے کوئی ایک حرکت ضرور ہوتی ہے۔

اسماء اور حسن! یہ تھا  آج  کا سبق۔ انشاء اللہ کل اس کو دہرائیں گے بھی اور کچھ نئی باتیں بھی سیکھیں گے۔ تو اب اجازت دیجئے-  خداحافظ۔