السلام علیکم سامعین!
سندھی لئنگویج اتھارٹی کی جانب سے تیار کردہ سندھی کورس کے ساتھ،میں ہوں ڈاکٹر فہمیدہ حسین۔
پچھلے سبق میں آپ نے سیکھا تھا کہ سندھی کے ایسے الفاظ جن کے آخری حروف پر پیش یا ’ اُ ‘ کی آواز ہو یا لمبی ’او‘ کی آواز ہو، وہ عموماً مذکر ہوتے ہیں، جبکہ آخری حروف پر ’اَ‘ یا ’ اِ ‘ کی آواز ہو تو ایسے الفاظ عموماً مؤنث ہوتے ہیں، جیسے ’عورت‘ کو کہتے ہیں ’عورتَ‘ اور آنکھ کو کہتے ہیں ’اکھِ ‘۔
یہ یاد رکھئے کہ سندھی میں ایسے زیر والے الفاظ بہت ہی کم ہوتے ہیں، عمومًا زبر والے الفاظ ہوتے ہیں، اور اس کے بعد یہ بات بھی یاد رکھئے کہ اردو کی طرح ’اِی‘ والے الفاظ سندھی میں بھی عموماً مؤنث ہی ہوتے ہیں۔ کرسی، گھوڑی، بلی، گھڑی، تھالی، رانی، نانی۔ یہ تمام الفاظ سندھی میں بھی اسی طرح بولے جاتے ہیں، جیسے اردو میں بولتے ہیں۔
اسماء: میڈم! ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے، وہ پوچھنا چاہتی ہوں۔
استاد: ضرور پوچھئے۔
اسماء: اردو میں کئی الفاظ ایسے ہوتے ہیں، جو ہوتے تو مذکر ہیں، مگر ان کے آخر میں ’اِی‘ کی آواز ہوتی ہے۔ مثلاً ہاتھی، مالی ، آدمی وغیرہ۔ کیا سندھی میں ایسا کچھ ہے؟
استاد: جی ہاں! ایسے الفاظ، جو اصولوں سے ہٹ کر دکھائی دیتے ہیں، انہیں ’استثنیٰ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سندھی میں بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً یہی دو الفاظ ’مالھی‘ اور’ہاتھی‘ لے لیجئے، یا ان کے علاوہ ’ساتھی‘ یا ’پکھی‘ (پنچھی) وغیرہ۔ سندھی میں یہ بھی مذکر ہیں۔
اسی طرح ’اُو‘ کی لمبی آواز والے کچھ الفاظ مثلاً: ’مانڑھوں‘ سندھی میں یعنی آدمی۔ یہ بھی مذکر ہوتے ہیں۔ دراصل پنچھی، آدمی، ساتھی یا ان کے سندھی متبادل چونکہ دونوں جنسوں کے لئے ہوتے ہیں، اس لئے ان کی جنس انگریزی میں تو Neuter ہوتی ہے، جسے Neuter gender کہتے ہیں کیونکہ انگریزی میں، کوئی جنس نہیں لگاتے اس کے ساتھ۔مگر برصغیر کی اکثر زبانوں میں (یہ جنس) مذکر ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے الفاظ اصولوں سے ہٹ کر سمجھے جاتے ہیں۔ ویسے اس طرح کی مثالیں ہر زبان میں ہوتی ہیں، مگر ان کی تعداد بہت محدود ہوتی ہے۔
اسی طرح کئی مؤنث الفاظ بھی مختلف صورتوں والے ہوتے ہیں، مثلاً مالا، دنیا، ماجرا ، دعا۔ اِن کے آخر میں ’آ‘ کی آواز آ رہی ہے۔ یہ سندھی میں بھی اسی طرح بولے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہیں آگے چل کر میں سمجھاؤں گی۔ مالا (سندھی میں مالھا)، دنیا، ماجرا، دعا وغیرہ ۔ یہ بھی سندھی میں استثنیٰ الفاظ ہیں۔
تو حسن! آپ اس بات کو سمجھ گئے؟
حسن: میڈم! میرے ذہن میں بھی ایک سوال آیا ہے۔ وہ یہ کہ سندھی میں تمام الفاظ کے آخری حروف پر حرکات یا حروف علت کیا صرف درست تلفظ کے لئے لگاتے ہیں یا اس کی کوئی اور وجہ بھی ہے؟
استاد: اس کی وجہ اور بھی ہے۔ ان حرکات کو درست ادائگی اور تلفظ کے لیے بھی لگاتے ہیں، مگر اُن کی اہمیت اس سے کچھ زیادہ بھی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ’کاغذُ‘، ’قلمُ ‘ تو اس کے آخر میں، جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ، پیش لگتا ہے۔ تو یہ مذکر کہلاتے ہیں، اور اگر ہم کہیں گے ’عورتَ‘، ’تصویرَ‘ میں’زبر‘ لگی ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ الفاظ مؤنث ہیں۔ اسی طرح اگر ہم کہیں گے کہ ’دیوارِ‘ یا ’ اکھِ‘ میں ’زیر‘ لگتی ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ الفاظ مؤنث ہیں۔
ان حرکات کی درست ادائگی سے تلفظ تو یقینًا درست ہوتا ہے، مگر ان کی اہمیت اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان الفاظ کو ایک بار ہم پھر دہرا لیتے ہیں، تاکہ میں آپ کو بتا سکوں کہ ان حرکات کی اہمیت کیا ہے۔ سب سے پہلے ہم نے سیکھا تھا کہ سندھی کے جو الفاظ مذکر ہوتے ہیں، تو ان کے آخری حروف پر پیش کی حرکت لگتی ہے۔ پیش والے الفاظ اسماء! آپ بول کر بتائیے، سندھی میں کس طرح کہیں گے۔
پہلے اردو میں کہیے گا تا کہ فرق نمایاں ہو جائے۔
اسماء: اردو میں کہیں گے’قلم‘ اور سندھی میں کہیں گے’قلمُ ‘ (قلمُ)
اردو میں = = = ’کاغذ‘ = = = ’کاغذُ‘ (ڪاغذُ)
اردو میں = = = ’باغ‘ = = = ’باغُ‘ (باغُ)
اردو میں = = = ’فرش‘ = = = ’فرشُ‘ (فرشُ)
اردو میں = = = ’خط‘ = = = ’خطُ‘ (خطُُ)
اردو میں = = = ’جہاز‘ = = = ’جہازُ‘ (جهازُ)
استاد: مذکر الفاظ کی ایک اور بھی قسم ہوتی ہے جن کی آخری آواز کو ہم ’آ‘سے ’او‘ میں تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے کچھ الفاظ حسن! آپ بتائیے۔
حسن: ’گھوڑا‘ تو سندھی میں کہیں گے ’گھوڑو‘ (گهوڙو)۔
’دروازہ‘ تو سندھی میں کہیں گے ’دروازو‘ (دروازو)۔
’پنکھا‘ تو سندھی میں کہیں گے ’پنکھو‘ (پنکو)۔
’لفافہ‘ تو سندھی میں کہیں گے ’لفافو‘ (لفافو)۔
’کیلا‘ تو سندھی میں کہیں گے ’کیلو‘ (ڪيلو)۔
’صوفہ‘ تو سندھی میں کہیں گے ’صوفو‘ (صوفو)۔
استاد: ٹھیک ہے۔ اس کا مطلب (جن الفاظ کے آخر میں) ’او‘ کی آواز ہے، وہ بھی مذکر الفاظ ہوتے ہیں۔ اور جو اِس کی آخری ’او‘ کی آواز ہے وہ ہمیں بتا رہی ہے کہ یہ الفاظ مذکر ہیں۔
اِس کے بعد ہم آتے ہیں مؤنث الفاظ کی طرف۔ اِن مؤنث الفاظ میں پہلی قسم میں نے آپ کو بتائی تھی، ایسے الفاظ کی، جن کے آخر میں ’زبر‘ ہوتی ہے۔ ایسے کچھ الفاظ اسماء! آپ بولئے۔
اسماء: اردو میں کہیں گے’میز‘ اور سندھی میں کہیں گے’میزَ‘ (ميزَ)۔
اردو میں کہیں گے’سڑک‘ اور سندھی میں کہیں گے’سڑکَ‘ (سڙڪَ)۔
اردو میں کہیں گے’عورت‘ اور سندھی میں کہیں گے’عورتَ‘ (عورتَ)۔
اردو میں کہیں گے’نتھ‘ اور سندھی میں کہیں گے’نتھَ‘ (نٿَ)۔
اردو میں کہیں گے’زمین‘ اور سندھی میں کہیں گے’زمینَ‘ (زمينَ)۔
اردو میں کہیں گے’تصویر‘ اور سندھی میں کہیں گے’تصویرَ‘ (تصويرَ)۔
استاد: یہ تمام الفاظ جن کے آخر میں’اَ‘ کی آواز ہے یا زبر کی حرکت لگی ہوئی ہے، ان کو بھی ہم دیکھیں گے کہ یہ مؤنث ہیں۔ مؤنث الفاظ کی ایک اور قسم ہوتی ہے،جس میں لفظ کے آخر میں ’زیر‘ ہوتی ہے۔ اور ’زیر‘ والے جو الفاظ ہوتے ہیں وہ بھی مؤنث ہوتے ہیں۔ حسن! آپ کو اگر کچھ الفاظ یاد ہوں تو بتائیے۔
حسن: ’چھت‘ کو سندھی میں کہیں گے’چھتِ‘ (ڇِتِ)۔
’رِیت‘ کو سندھی میں کہیں گے’ریتِ‘ (رِيتِ)۔
’دیوارِ‘ کو سندھی میں کہیں گےدیوارِ یا ’بھتِ‘ (ڀِتِ)۔
’آنکھِ‘ کو سندھی میں کہیں گے’اکھِ‘ (اکِ)۔
’شکلِ‘ کو سندھی میں کہیں گے’شکلِ‘ (شڪلِ)۔
استاد: اور اس کے بعد کچھ ایسے الفاظ بھی ہیں جو اردو اور سندھی میں ایک جیسے ہیں اور مؤنث ہیں۔ ایسے الفاظ آپ کے خیال میں کون سے ہو سکتے ہیں؟
اسماء: ’گھوڑی‘ کو کہیں گے ’گھوڑی‘(اسی طرح)، ’بلی‘، ’ گھڑی‘، ’ چٹھی‘ اور ’دھرتی‘۔
استاد: یہ تمام الفاظ ’اِی‘ کی آواز والے ہیں اور ان کے اور سندھی الفاظ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور یہ تمام الفاظ مؤنث الفاظ ہیں۔ تو اسماء اور حسن یہ آج کا سبق تھا جو آپ کو یاد بھی رکھنا ہے اور کل دہرانا بھی ہے۔ تو اب اجازت دیجئے۔ خداحافظ۔