السلام علیکم سامعین!
سندھی لئنگویج اتھارٹی حیدرآباد کی جانب سے تیار کردہ سندھی بول چال کے پروگرام کے ساتھ، میں ہوں ڈاکٹر فہمیدہ حسین۔
پچھلے سبق میں آپ نے سیکھا تھا کہ سندھی میں حروف جار یعنی postpositions کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔ جو لوگ گرامر کے ان الفاظ سے واقف نہیں، وہ یوں سمجھیں کہ جملوں میں جو الفاظ ’میں‘،’ پر‘، ’ کو‘ ’ کا‘ وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، ان سب کی بات کر رہی ہوں۔ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ سندھی الفاظ کے آخری حروف کی حرکات میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ مثلاً:’کاغذ پر لکھو‘ کے لئے جملہ ہوگا ’کاغذَ تے لکھُ‘ اس میں لفظ ’ کاغذُ‘ کا آخری پیش زبر میں تبدیل ہوگیا۔ اس اصول کو مزید سمجھنے کے لئے آج کچھ جملے بنائیں گے اور کچھ پہلے کے بنے ہوئے جملے دہرائیں گے اور اگر آپ کچھ نئے الفاظ یاد کرکے آئے ہیں یا سیکھے ہیں۔ تو ان کو بھی آپ استعمال کرکے بتائیے۔
حسن! آپ کوئی جملہ بناکر بتائیے:
حسن: اونٹ پر چڑھو۔ اُٹھَ تے چڑہ (مذکر واحد- اُٹُھ)
پھول میں خوشبو ہے ۔ گلَ میں خوشبو آہے (مذکر واحد- گلُ)
مٹکے سے پانی پیئو۔ مٹَ ماں پانڑیں پیءُ (مذکر واحد- مَٹُ) (پانی میں خالص سندھی آواز ’ڑں‘ہے)
استاد: کچھ مذکر اسم ’او‘ کی آواز والے بھی استعمال کرکے بتائیے۔ اسماء! اردو کا کوئی جملہ بنائیے۔
اسماء: گھوڑے کو نہ مارو اس کا ترجمہ ہوگا گھوڑے کھے نہ مارِ۔
خط لفافے میں ہے خطُ لفافے میں آہے۔
حسن صوفے پر بیٹھا ہے حسنُ صوفے تے ویٹھو آہے۔
استاد: ٹھیک ہے، ان جملوں میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ اردو کے’ آ‘ والے مذکر اسم جو سندھی میں ’او‘ میں تبدیل ہو جاتے ہیں (لفافہ-لفافو) جب ان کے بعد کوئی حرف جار ’کھے‘، ’ میں‘، ’تے‘ وغیرہ آتا ہے تو دونوں زبانوں میں لفظ کی صورت ایک جیسی ہوجاتی ہے۔ جیسے: 'لفافے میں'، 'گھوڑے کو' تو سندھی میں بھی 'گھوڑے کھے' یا 'لفافے میں' ہوگا۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ 'لفافے' اور 'گھوڑے' کی صورت اردو سندھی دونوں میں ایک جیسی ہے۔
اب آتے ہیں مؤنث الفاظ کی طرف۔۔۔ مؤنث الفاظ کی حرکات (کی طرف)۔ اگر آخری حروف پر زبر یا زیر ہیں تب تو کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن اگر مؤنث لفظ کا آخری حرف ’ی‘ ہے یا اس میں ’ ای‘ کی آواز آ رہی ہے تو اس میں ’ءَ‘ کی اضافی آواز ملائی جائے گی۔ مثال کے طور پر لفظ ’عورت‘ سندھی میں ’عورتَ ‘ ہوتا ہے۔ جملے میں دیکھئے:
عورت کی عزت کرو عورتَ جی عزت کریو۔
لفظ ’دال‘ سندھی میں زیر کے ساتھ ’دالِ‘ ہوتا ہے۔ اورجملے میں جب استعمال کریں گے تو یہ تبدیل نہیں ہوگی:
دال میں کالا ہے دالِ میں کارو آہے۔
یعنی ’دال‘ لفظ کی حرکت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اب آئیے’ ای‘ والا کوئی لفظ لیتے ہیں۔
بلی کو نہ مارو بلیءَ کھے نہ مار۔ (’ٻليءَ‘ مخصوص سندھی آواز کے ’ٻ‘ساتھ)
یہاں’ ای‘ کے بعد ’ءَ ‘ کا اضافہ ہوا۔ یہ سندھی میں حروف جار کے استعمال سے حرکت میں تبدیلی کی مثال ہے۔ ایسے کچھ جملے آپ بھی بنا کر بتائیے۔
حسن: امی کی عزت کرو امیءَ جی عزتَ کریو۔
کھڑکی کو کھولو کھڑکیءَ کھے کھول۔
استاد: ’کھڑکی‘ کو ’دری‘ کہتے ہیں، اس لئےکہیں گے ’دریءَ کھے کھول‘ ہوگا۔
اسماء: میڈم میں جملے بناؤں۔
باجی کا نام آمنہ ہے باجیءَ جو نالو آمنہ آہے۔
استاد: سندھی میں ’باجی‘ بھی کہتے ہیں مگر عام طور پر ’ادی‘ کہتے ہیں، اس کے لئے جملہ تبدیل ہو جائے گا:’ ادیءَ جو نالو آمنہ آہے‘۔
(جملہ دہرایا جائے گا)
استاد: ٹھیک ہے۔ یہ درست استعمال ہے۔ اب آپ اصول سمجھ گئے ہیں؟
حسن: میڈم! میں ایک سوال پوچھوں؟
استاد: ضرور پوچھئے۔
حسن: ’ای‘ کی آواز والا لفظ مذکر ہو تو کیا صورت ہوگی۔ مثلاً: ہاتھی، ساتھی وغیرہ۔
استاد: اس صورت میں بھی حروف جار کے استعمال کی وجہ سے اضافی ’ اَ ‘ کی آواز لگے گی جیسے’ ہاتھی کا پیر ‘ کہنا ہو تو کہیں گے: ’ہاتھیءَ جو پیرُ‘۔
اسماء: اسی طرح ’مالی کا گھر‘ کہنا ہو تو کیا کہیں گے؟ ’مالھیءَ جو گھر‘۔
حسن: میڈم! میں نے لغت سے کچھ الفاظ یاد کئے تھے، ان کو جملوں میں استعمال کرتی ہوں، اگر کہیں غلطی ہو تو درست کیجئے گا۔
استاد: ٹھیک ہے۔
حسن: وہ کراچی گیا ہے ہو کراچیءَ ویو آہے۔ (اس میں حرف جار خفیہ ہے)
’گیا‘ کو ’وِیو ‘ کہتے ہیں نا؟
مالی کا بیٹا آیا ہے مالھیءَ جو پٹ آیو آہے۔ (سندھی میں 'مالی' کو 'مالھی' کہتے ہیں)
بیٹے کو ’ پُٹُ‘ کہتے ہیں؟
استاد: جی ہاں۔ اب آپ کوئی اسی قسم کا جملہ بناکر بتائیے، ’ای‘ کی آواز والا۔
اسماء: وہ پنڈی سے آیا ہے ہو پنڈیءَ ساں آیو ہے۔
استاد: یہاں پر ’سے‘ کا ترجمہ ’ساں‘ نہیں ہوگا، بلکہ ’ماں‘ (یا 'کھاں') ہوگا۔ اردو لفظ ’سے‘ کے سندھی میں چار متبادل حروفِ جار ہیں جو میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں ’ماں‘، ’تاں‘، ’ کھاں‘ اور ’ساں‘۔ ان کے بارے میں ، میں آپ کو کل تفصیل سے بتاؤں گی۔
آج آپ نے سیکھا کہ سندھی کے مذکر اور مؤنث الفاظ کے بعد اگر حروف جار یا postpositions استعمال ہوں، تو ان کی صورت یا حالت میں تھوڑی سی تبدیلی ہوتی ہے۔ گرامر یا قواعد کی زبان میں اس کو لفظ کی ’جری حالت‘ بھی کہتے ہیں۔سندھی میں لفظ کے آخری حروف میں تبدیلی سے اس کا پتہ چلتا ہے۔ آج کا سبق ہم یہیں ختم کرتے ہیں۔ خدا حافظ۔